عربی تفسیروں
کے اردو ترجمے تعارف وتجزیہ (۱)
از: مولانا
اشتیاق احمد
مدرس دارالعلوم دیوبند
’’ترجمہ‘‘ مستقل ایک فن ہے، مختلف
شعبہ ہائے زندگی میں اس کی ضرورت واہمیت مسلم ہے، تراجم کی
مختلف اصناف میں مذہبی تراجم سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں؛
اس لیے کہ ایک سروے کے مطابق دنیا بھر کے من جملہ تراجم کی
خدمات میں نصف سے زائد خدمات مذہبی تراجم پر مشتمل ہیں۔
قرآنِ پاک کا ترجمہ سب سے پہلے لاطینی، پھر فرانسیسی اور
پھر انگریزی میں ہوا، ایک سروے کے مطابق دنیا میں
چھ ہزار پانچ سو (۶۵۰۰) زبانیں بولی
جاتی ہیں، ان میں سے دو ہزار تین سو پچپن (۲۳۵۵) زبانوں میں
انجیل کا ترجمہ ہوچکا ہے، اور مسلمان تجزیہ نگاروں کا دعویٰ
ہے کہ قرآن مجیدکا ترجمہ دنیا کی اکثر زبانوں میں ہوچکا
ہے، اردو زبان آج سے چھ سات صدی پہلے وجود میں آئی، ترجمہ کی
روایت اس میں دو سو سال بعد شروع ہوئی، اس زبان میں سب سے
پہلے ’’تمہیداتِ عین القضاة‘‘ کا ترجمہ ’’تمہیداتِ ہمدانی‘‘
کے نام سے شاہ میراں جی خدانما نے ۱۶۰۳/ میں کیا، اردو زبان میں
قرآنِ مجید کا سب سے پہلا ترجمہ شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ کے
فرزندِ ارجمند شاہ رفیع الدین صاحب رحمہ الله نے ۱۷۷۶/
میں
کیا، اس وقت اردو زبان کی نثر اچھی خاصی صاف، سادہ اور
رواں ہوگئی تھی، لیکن وہ ترجمہ خاصا لفظی تھا؛ اس لیے
ان کے حقیقی چھوٹے بھائی حضرت شاہ عبدالقادر صاحب رحمہ
الله نے ۱۷۹۵/ میں اس وقت کی فصیح
وبلیغ رائج ومستند ٹکسالی زبان میں دوسرا ترجمہ کیا، یہ
ترجمہ اتنا عمدہ ٹھہراکہ اس سے اہل علم مترجمین نے ترجمہ نویسی
کے متعدد اصول وضع کیے۔ (ان ساری باتوں کے حوالوں کے لیے
ترجمہ نگاری اور ابلاغیات، ص:۱۷۶ تا ۱۸۰ (مطبوعہ: مولانا
آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد) کو بھی
دیکھا جاسکتا ہے) جب یہ ترجمہ بھی قدیم ہوگیا تو
حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن رحمہ الله
نے مالٹا کی جیل میں ان کو سامنے رکھ کر ایک عمدہ
ترجمہ کیا، اور اب اسلامی کتب خانوں میں محض اردو زبان میں
قرآنِ کریم کے ترجموں کی تعداد ساٹھ سے زائد ہوچکی ہے، اور تفسیروں
کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔
یہ حقیقت مسلم ہے کہ تفسیروں
کا سب سے بڑا ذخیرہ عربی زبان میں ہے، یہی زبان دین
اسلام کی صحیح اور مستند ترجمان ہے، اردو زبان میں مذہب اسلام
کا سب سے زیادہ حصہ اسی زبان سے منتقل ہوا ہے، راقم الحروف نے اپنے اس
مقالے میں تفسیروں کے محض ان ترجموں کے تعارف کو موضوع بنایا
ہے، جو براہِ راست عربی سے اردو میں کیے گئے ہیں۔
’’بارہ تفسیروں‘‘ کے کل تیئس ترجمے میرے محدود استقراء میں
آ ئے ہیں، ان میں سے صرف ’’پانچ تفسیریں‘‘ ایسی
ہیں، جن کے ترجمے مکمل ہوسکے ہیں، بقیہ تفسیروں کے ترجمے
اب تک تشنہٴ تکمیل ہیں۔ الحمدللہ یہ سارے ترجمے
علماء ہند کے ہیں، ان میں بھی چودہ ترجمے علماء دیوبند نے
کیے ہیں، بقیہ کے بارے میں تحقیق نہ ہوسکی کہ
وہ کس مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں، اُن ترجموں کاتعارف پیش خدمت ہے۔
تفسیر ابن
عباس رضي الله عنہ
اصولِ تفسیر میں قرآنِ کریم
کے معانی کی وضاحت کے لیے مفسرین نے چھ مآخذ ذکر فرمائے ہیں:
(۱) آیات کی تفسیر آیات
ہی سے ہو۔
(۲) آیات کی تفسیر صحیح
احادیث سے ہو۔
(۳) آیات کو آثارِ صحابہ رضي الله
عنہ کی روشنی میں سمجھا
جائے۔
(۴) آیات کو تابعین رحمہ
الله کے ارشادات سے سمجھا جائے۔
(۵) لغتِ عربِ اولین سے بھی
مرادِ الٰہی کی تعیین میں مدد ملتی ہے۔
(۶) آخری درجہ عقلِ سلیم
اور فہمِ صحیح کا ہے۔
ان میں قرآن وحدیث کے بعد سب
سے قابلِ اعتماد مآخذ صحابہٴ کرام رضي الله عنہم
کے آثار ہیں؛ اس لیے کہ ہم تک دین کے پہنچنے کا سب سے
اہم واسطہ صحابہٴ کرام رضي الله عنہم ہیں، انھوں نے ہی مشکوٰةِ
نبوت سے اولین مرحلے میں روشنی حاصل کی، اگر ان پر ہمارا
اعتماد نہ رہا تو دین کا سارا دفتر بے اعتبار ہوجائیگا، نعوذ باللہ
قرآن کی آیات بھی مشکوک ہوجائیں گی؛ اس لیے
کہ یہ بھی انھیں کے واسطہ سے ہم تک پہنچی ہیں، یہی
وجہ ہے کہ مفسرین نے آثارِ صحابہ رضي الله عنہم کو بڑی اہمیت دی
ہے، ان میں بھی حضرت عبداللہ بن عباس رضي الله عنہ کا امتیاز مسلم ہے، یہ رسول اللہ
صلے اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی تھے، فہمِ آیات میں
انھیں ایک خاص ذوق حاصل تھا، اور وہ دعائے نبوی کی برکت
تھی (فتح الباری:۱/۱۷۰)
آپ
کو ’’ترجمانُ القرآن‘‘ کے مبارک لقب سے نوازاگیا (ابن مسعود رضي الله عنہ ،
مستدرکِ حاکم) آپ رضي الله عنہ میں سارے صحابہٴ کرام رضي الله عنہم کے
علوم جمع تھے، ناچیز کے محدود علم میں دوہی صحابہٴ کرام
رضي الله عنہم ایسے ہیں، جن کی تفسیری روایات
اکٹھا کتابی شکل میں دستیاب ہیں، ایک تو حضرت ابن
عباس رضي الله عنہ ہیں اور دوسرے
حضرت ابن مسعود رضي الله عنہ ، حضرت عبداللہ بن عباس کی تفسیر کو یہ
خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اس کے اردو ترجمہ سے بھی امت مستفید
ہورہی ہے، میرے علم میں ابھی تک ’’تفسیر ابن مسعود
رضي الله عنہ ‘‘ کا اردو ترجمہ نہیں ہوسکا ہے۔
تفسیرابن
عباس رضي الله عنہ کے مراتب
اس کے موٴلف علامہ ابوالطاہر محمد بن
یعقوب بن محمد بن ابراہیم نجد الدین فیروزآبادی شیرازی،
شافعی ہیں، (ولادت:۷۴۹ھ
مطابق ۱۳۳۹/ وفات: ۲۰/شوال ۸۱۷ھ مطابق ۳/جنوری
۱۴۱۵/) یہ جلیل
القدر مفسر، محدث اور ادیب تھے، علمِ لغت میں اپنا ایک نمایاں
مقام رکھتے تھے، علامہ فیروزآبادی رحمہ الله نے دنیا کے مختلف ممالک کی سیاحت
کی ہے، حرمین شریفین، ایشیائے کوچک، ترکی،
قاہرہ کے علاوہ ہندوستان آنے کی تاریخ بھی ملتی ہے، ان کی
تصانیف درج ذیل ہیں:
(۱) بصائر ذوالتمیز في لطائف الکتاب
العزیز:
یہ قرآن مجید کی تفسیر ہے، چھ جلدوں پر مشتمل ہے، قاہرہ
اور بیروت سے بارہا چھپ چکی ہے۔
(۲) سِفر السعادة یا الصراط المستقیم
کے
نام سے سیرت النبی صلے اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر ایک
مختصر مگر جامع تصنیف ہے۔
(۳) صحیح بخاریکی ایک
شرح کا ذکر بھی ان کے تراجم میں ملتا ہے، مگر وہ نایاب ہے۔
(۴) علامہ زمخشری رحمہ الله کی کشاف کے خطبہ کی ایک
مستقل شرح بھی تحریر فرمائی تھی۔
(۵) البُلغہ في تاریخ أئمة اللغة: یہ
کتاب بھی اہلِ علم کے نزدیک اہم اور مرجع کی حیثیت
رکھتی ہے۔
(۶) القاموس: یہ سب سے
مشہور اور مفید ترین لغت ہے، محققین علماء اس پر اعتماد کرتے ہیں،
سیدمرتضیٰ زبیدی (وفات ۱۷۹۱/) نے ’’تاج العروس‘‘ کے نام سے اس کی
دس جلدوں میں شرح لکھی ہے۔
(۷) تنویر المقباس من تفسیر ابن
عباس رضی اللہ عنھما: علامہ فیروزآبادی رحمہ
الله نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی
اللہ عنہما کی تفسیری روایات کو اکٹھا کرکے بہت بڑا
کارنامہ انجام دیا ہے، اشاعت کے بعد سے ہی اس کی مقبولیت
چہار دانگِ عالم میں پھیل گئی؛ اس لیے کہ آپ کی شخصیت
بالاتفاق امت میں ترجمان القرآن کی حیثیت سے مسلم ہے، آپ
کی تفسیر وروایت کی بہت سی خصوصیات ہیں،
مثلاً:
الف) روایات
اکثر رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہیں، حضرت عمر رضي الله
عنہ جیسے بڑے بڑے صحابہ کرام رضي
الله عنہم آپ سے تفسیر قرآنی میں استفادہ کرتے تھے۔
ب) ان
کی تفسیر سارے صحابہٴ کرام رضي الله عنہم کی تفسیروں
کا مظہرِ جمیل ہے؛ اس لیے کہ انھوں نے سارے صحابہٴ کرام رضي
الله عنہم کے علوم کو اکٹھا کرلیاتھا۔
ج) ان
میں لغت، اشعار، محاورات، لہجات اور ایام وتاریخ سے استدلال؛
بلکہ ان کی دقیق اور مفید علمی بحث ہے۔
د) یہ
تفسیر حضرت ابن عباس رضي الله عنہ
کے حزم و احتیاط کا نمونہ بھی ہے، حافظ ابن حجر رحمہ الله فرماتے ہیں کہ: اگر ان سے کوئی
مسئلہ پوچھتا تو سب سے پہلے آیات سے اس کا جواب دیتے؛ لیکن اگر
کوئی حکم قرآنِ پاک میں واضح نہ ملتا تو حدیث وسنت کو بنیاد
بناتے، اور اگر قولِ نبی سے مسئلہ صراحتاً ثابت نہ ہوتا تو شیخین
کے اقوال میں جواب تلاشتے تھے؛ لیکن اگران میں بھی جواب کی
جانب اشارہ نہ پاتے تو اپنی رائے بیان فرماتے، اور اپنی رائے کے
دلائل بھی اچھی طرح واضح فرمادیتے تھے۔ (الاصابہ فی
تمیز الصحابہ ۱/۳۲۵)
ھ) علامہ
ذہبی رحمہ الله کے بہ قول حضرت ابن
عباس رضي الله عنہ نے قرآنِ پاک کے اجمال
کی تفصیل میں بعض جگہ انجیل سے بھی استفادہ کیا
ہے، مگر بڑے ہی حزم واحتیاط کے ساتھ۔
و) حضرت
ابن عباس رضي الله عنہ کے دور میں
بہت سے ایسے مسائل بھی سامنے آئے، جن کا واضح حکم قرآن وحدیث میں
نہیں تھا، ان میں سے بہت سے اہم مسائل کو آپ نے آیات سے مستنبط
کیا؛ اس طرح کے مجتہدات بھی آپ رضي الله عنہ سے منقول ہیں۔
ز) آپ
رضي الله عنہ کی مرویات کی
تعداد ایک ہزار چھ سو ساٹھ (۱۶۶۰)
یا
ایک ہزار سات سو دس (۱۷۱۰)
ہے،
یہ ساری روایتیں بخاری شریف اورمسلم شریف
کے علاوہ دیگر کتب حدیث میں بھی ہیں، حدیث شریف
کا کوئی بھی مجموعہ ایسا نہیں جس میں آپ رضي الله
عنہ کی روایات درج نہ ہوں،
کوئی مفسر آپ کے فہمِ قرآن سے بے اعتنائی نہیں کرسکتا، آپ کے
اقوال کا بہت بڑا ذخیرہ ’’جامع البیان في تفسیر القرآن‘‘ میں
ہے، یہ علامہ ابن جریر طبری رحمہ الله (۲۲۴ھ تا ۳۱۰ھ) کی مرتب
کردہ ہے، یہ تفسیر کے ذخیرہ میں سب سے پہلی اور
مفصل کتاب ہے۔
یہ قیمتی ذخیرہ
آٹھویں صدی تک مختلف کتابوں میں منتشر تھا، اللہ تعالیٰ
نے علامہ فیروزآبادی رحمہ الله
کو توفیق بخشی اور انھوں نے ان مرویات کو ایک جگہ
جمع فرماکر امت پر احسان فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ ان کو اس کی
جزا عنایت فرمائیں (آمین)
تفسیر ابن
عباس کی اسنادی حیثیت
حضرت عبداللہ بن عباس رضي الله عنہ کے تفسیری افادات دنیا میں
ہر طرف پھیلے ، حرمین شریفین کے علاوہ عراق دمشق اور دیگر
بلادِ اسلامیہ میں بھی آپ رضي الله عنہ ہی کے شاگردوں نے آپ کی روایات؛
بلکہ فن تفسیر کو عروج بخشا، مشہور تلامذہ درج ذیل ہیں:
حضرت سعید بن جبیر امام مجاہد
بن جبر، امام ضحاک بن علی بن ابی طلحہ، مقاتل بن سلیمان اور
حضرت عکرمہ وغیرہ۔ (تلخیص از عرض مترجم، مع ترجمہ تفسیر
ابن عباس رضي الله عنہ ،ص:۲۳)
حضرت ترجمانُ القرآن رضي الله عنہ کی روایات اِنھیں شاگردوں سے
تفسیر اور حدیث کی کتابوں میں مروی ہیں، کتبِ
ستہ کے علاوہ مسند احمد، مسند ابوداؤد طیالسی، مسند شافعی، مسند
حمیدی، معجم طبرانی، سنن دارمی، سنن دارقطنی اور
المنتقیٰ لابن جارود وغیرہ میں بھی کتاب التفسیر
میں کثرت سے روایات ملتی ہیں، اسی کے ساتھ یہ
بھی حقیقت ہے کہ بہت سی باتیں ایسی بھی
ہیں جو خلافِ واقعہ حضرت ابن عباس رضي الله عنہ کی طرف منسوب ہیں، اس طرح کی
موضوع اور الحاقی روایات کو صحیح اور مستند روایات سے الگ
کرنا ضروری ہے؛ لیکن اتفاق سے اب تک یہ کام نہیں ہوسکا
ہے، رہا یہ مجموعہ جس کو علامہ فیروزآبادی رحمہ الله نے ترتیب دیا ہے، وہ ایک ہی
سند پرمشتمل ہے، جو محدثین و مفسرین کے نزدیک نہایت کمزور
اور ناقابلِ اعتماد ہے؛ البتہ مقاصدِ شریعت اور درایت ومعانی کے
لحاظ سے ذکر کردہ باتیں اکثر قابلِ اعتماد ہیں، ضرورت ہے کہ تحقیق
کے کام کو کوئی محقق عالم انجام دے، جس کی نظر احادیث ورجال پر
ہو، نیز مضامینِ قرآن اور تفسیرِ آیات سے اچھی خاصی
مناسبت ہو، وباللہ التوفیق!
تفسیر ابن
عباس رضي الله عنہ کے نسخے
اس تفسیر کے درج ذیل نسخے
موجود ہیں:
(الف) ایک قلمی نسخہ مخطوطہ کی
شکل میں پنجاب پبلک لائبریری لاہور میں ہے۔
(ب) ۱۳۱۴ھ میں مصر
سے ’’دُرِّمنثور‘‘ کے حاشیہ پر شائع ہوئی۔
(ج) ۱۳۱۶ھ میں علاحدہ
طور پر مصر سے ہی شائع ہوئی۔
(د) ۱۲۸۵ھ میں حضرت
شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی رحمة اللہ علیہ کے ’’ترجمہ قرآن مجید‘‘
کے ساتھ شائع ہوئی۔
(ھ) اس
کے بعد حضرت شاہ رفیع الدین صاحب رحمة اللہ علیہ کے ’’ترجمہ
قرآن مجید‘‘ کے حاشیہ پر شائع ہوئی۔ (مستفاد: از عرض
مترجم، تفسیر ابن عباس رضي الله عنہ ،ص:۷)
لبابُ النقول في
أسباب النزول
تفسیر ابن عباس رضي الله عنہ کے ساتھ علامہ سیوطی رحمة اللہ علیہ
(۹۱۱ھ) کی مشہور
ومعروف کتاب ’’لباب النقول في اسباب النزول‘‘ بھی مطبوع ومترجم ہے، ’’شانِ
نزول‘‘ کے موضوع پر یہ بڑی قابلِ اعتماد کتاب ہے،اس میں حدیث،
اصولِ حدیث اور اصولِ درایت نصوص کو سامنے رکھ کر روایات کی
تلخیص کی گئی ہے، شروع میں قدرے تفصیل سے مقدمہ
لکھا ہے، اس میں شانِ نزول کی اہمیت روایات کے درمیان
ترجیح کے اصول، ائمہ کے اقوال اور اپنے طرزِ تلخیص کو بڑے عمدہ انداز
میں بیان فرمایا ہے، غرض یہ کہ علامہ سیوطی
رحمہ الله نے اسبابِ نزول والی روایات
کی سندوں کی اچھی طرح چھان بین کی ہے،راویوں
کے سلسلے میں یہ بھی تحقیق کی ہے کہ کون سے راوی
مذکورہ واقعہ کے وقت موجود تھے اور کون سے نہیں؟ اور آیا وہ اعلیٰ
درجہ کے مفسر تھے یا نہیں؟ خود انھوں نے یہ بھی وضاحت
فرمائی ہے کہ میں نے اختصار کے پیش نظر سندوں کو بیان
کرنے کے بجائے، اس کتاب کا حوالہ دے دیا ہے، جس میں وہ روایت
مذکور ہے؛ تاکہ قاری خود بھی تحقیق کرسکے، اسی طرح اپنے پیش
رو مصنف علامہ واحدی رحمہ الله کے بیان
کردہ مباحث کو بھی ’’ک‘‘ کے رمز کے ساتھ اس تصنیف میں شامل
فرمالیا ہے، متعارض روایات کے درمیان دفعِ تعارض کی بھی
کوشش کی ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ ’’لبابُ النقول‘‘ میں
حضرت عبداللہ بن عباس رضي الله عنہ کی
روایات بہت زیادہ ہیں، لبابُ النقول کی جامعیت اور
مذکورہ بالا خصوصیات کی وجہ سے امت نے اسے قبول کیا ہے۔
’’لبابُ النقول‘‘
کا اردو ترجمہ
تفسیر ابن عباس رضي الله عنہ کے ساتھ ’’لبابُ النقول‘‘ کی طباعت چوں
کہ عربی زبان میں ایک ساتھ عمل میں آئی تھی؛
اس لیے ترجمہ میں بھی اس کو الگ نہیں کیاگیا:
(الف) مولانا عابدالرحمن صدیقی
رحمہ الله کے ترجمہ میں بھی
لباب النقول کا ترجمہ ہے۔
(ب) اور
حافظ محمد سعید احمد عاطف نے بھی اس کا اردو ترجمہ کیاہے۔
جس طرح ’’تفسیر‘‘ میں پہلے
حضرت ابن عباس رضي الله عنہ کی مرویات
نقل کی گئی ہیں؛ پھر اس آیت سے متعلق شانِ نزول کی
روایت اگر موجود ہے تو اس کو ذکر کیا ہے؛ اسی طرح ترجمہ میں
بھی پہلے آیات کا ترجمہ ہے، پھر حضرت ابن عباس رضي الله عنہ کی تفسیر کا، اس کے بعد علامہ سیوطی
رحمہ الله کی ’’لباب النقول‘‘ کا
ترجمہ ہے، لباب النقول کے ترجمہ سے پہلے ہر جگہ ’’شانِ نزول‘‘ اورآیت کا
ابتدائی ٹکڑا عنوان کے طور پر لکھا گیا ہے،اور جہاں پر بات پوری
ہوئی ہے، وہاں قوسین کے درمیان ’’لباب النقول في اسباب النزول
از علامہ سیوطی رحمہ الله ‘‘ درج ہے؛ البتہ بعض جگہوں پر بین
القوسین والی عبارت کتابت سے رہ گئی ہے۔
تفسیر ابن
عباس کے اردو ترجمے
علامہ ابوطاہر فیروزآبادی رحمہ
الله کی جمع کردہ تفسیر ابن
عباس رضي الله عنہ کے دو ترجمے
نظرنوازہوئے:
(الف) ایک کے مترجم پروفیسر
حافظ محمد سعید احمد عاطف ہیں، ان کا آبائی وطن بالاکوٹ
(پاکستان) ہے۔
(ب) دوسرے
کے مترجم حضرت مولانا عابدالرحمن صدیقی رحمة اللہ علیہ ہیں۔
اس ترجمہ کو پہلے ۱۹۷۰/ میں ‘‘کلام
کمپنی کراچی’’ نے شائع کیا۔ اوّل الذکر مترجم نے آخرالذکر
مترجم کے ترجمہ سے خصوصی استفادہ کیا ہے، جس کی صراحت خودانھوں
نے ’’عرضِ مترجم‘‘ (ص:۸) میں
کی ہے، دونوں مترجمین میں سے کسی کے شخصی احوال
معلوم نہ ہوسکے؛ اس لیے مزید تعارف رقم نہیں کرسکتا۔
(ج) ایک اور ترجمہ کا ذکر بھی
اول الذکر مترجم نے کیا ہے، یہ ۱۹۲۶/ میں آگرہ سے شائع ہوا ہے
(عرضِ مترجم،ص:۸)
راقم الحروف کے خیال میں یہی
اولین ترجمہ ہے، لیکن یہ ترجمہ دریافت نہ ہوسکا، اورنہ ہی
اس کی مزید تفصیلات معلوم ہوسکیں۔
ترجمہ پروفیسر
حافظ محمد سعید احمد عاطف
۲۰۰۶/
میں
’’اعتقاد پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی‘‘ نے اس ترجمہ کو شائع کیا، یہ
تین جلدوں پر مشتمل ہے، پہلی جلد کے صفحات کی تعداد پانچ سو پینتیس
(۵۳۵) ہے، دوسری
جلد چار سو چونسٹھ (۴۶۴) اور تیسری
پانچ سو چار (۵۰۴) صفحات پر مشتمل
ہے، صفحات کی کل تعداد پندرہ سو تین ہے، قیمت چھ سو پچھتّر (۶۷۵) روپے درج ہے۔
روزنامہ’’منصف‘‘ حیدرآباد کے توسط سے
طباعت کے بعدہی راقم الحروف کے پاس برائے تبصرہ یہ ترجمہ آیا
تھا، تبصرہ لکھاگیا اور چھپا بھی، اس نسخہ میں کتابتِ قرآن کی
تصحیح کی سند مع مہر تیسری جلد کے اخیر میں
درج ہے، اوپر دائیں کالم میں آیات اور بائیں کالم میں
مولانا فتح محمد جالندھری رحمہ الله
کا ترجمہ قرآن ہے، ترجمہ کی زبان سلیس اور بامحاورہ ہے۔
تفسیرکا ترجمہ لفظی نہیں،
بلکہ آزاد کیاگیا ہے، اکثر جگہوں پر لفظ دو لفظ کے اضافہ کو بھی
گوارا کیاگیا ہے، تاکہ اردو خواں حلقہ کو ترجمہ پن کا احساس نہ ہو،اسی
طرح ہر آیت کی تفسیر سے پہلے اس کا نمبر بھی دے دیاگیا
ہے، تاکہ مقارنہ میں آسانی ہو، ’’لباب النقول‘‘ کے شانِ نزول کو بھی
آیت نمبر کی تعیین کے بعد لکھا گیا ہے،اور اہم بات یہ
ہے کہ دیوبند سے چھپے ہوئے ترجمہ کو سامنے رکھ کر یہ ترجمہ کیاگیا
ہے،اس سے استفادہ کی صراحت خود مترجم نے کی ہے(ص:۸)
اس ترجمہ میں پہلے ’’نقشِ اول‘‘ کے
نام سے ’’عرضِ ناشر‘‘ ہے،اس میں تفسیر اور اس کے جامع ومرتب کے ساتھ
ترجمہ کی ضرورت بیان کی گئی ہے، ساتھ ہی مترجم
ومعاونین کا شکریہ ادا کیاگیا ہے، پھر چار صفحات پر مشتمل
عرضِ مترجم ہے، اس میں قرآنِ پاک، ترجمہ و تفسیر، سیرت نبوی
اور آثارِ صحابہ وغیرہ کی اہمیت بیان کی گئی
ہے، ’’تنویر المقباس‘‘ کے مقام ومرتبہ کو بیان کیاگیا
ہے،اس کے مخطوطہ اور مطبوعہ نسخوں کی تفصیلات درج کی گئی
ہیں، ساتھ ہی اس کے دو اردو ترجمے کا ذکر بھی ہے، پھر مترجم نے
اپنے ترجمے کی خصوصیات بیان فرمائی ہیں، اخیر
میں معاونین کا شکریہ اور قارئین سے دعا کی درخواست
ہے،اس کے بعد پندرہ صفحات پر مشتمل ایک مقالہ ہے،اس میں ترجمانُ
القرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضي الله عنہ
کی زندگی کو کافی تفصیل سے پیش کیاگیاہے،
نام ونسب، حلیہ، شوقِ علم، دعائے نبوی کا فیضان، حیرت انگیز
ذہانت، علم کے لیے اسفار، علومِ اسلامی سے عمومی اور علومِ قرآنی
سے خصوصی دلچسپی، طرزِ تفسیر اور مرویات کی تعداد
وغیرہ بھی بیان کی گئی ہے، اس کے بعد دو مضمون ہے،
ایک میں علامہ سیوطی رحمہ الله کا تعارف اور مختصر احوال ذکر کیے گئے ہیں،
دوسرے میں علامہ ابوالطاہر فیروزآبادی رحمہ الله موٴلف تفسیر ابن عباس رضي الله
عنہ کا تعارف دو صفحات میں مرقوم ہے۔
ان سب کے بعد ترجمہ کی ابتداء کی
گئی ہے، سب سے پہلے علامہ سیوطی کی ’’لباب النقول‘‘ کا
مقدمہ ہے، پھر ’’تنویرالمقباس‘‘ کا مقدمہ ہے، آخر الذکر مقدمہ میں حمد
وصلوة کے بعد تفسیر کے سلسلہٴ سند کو بیان کیاگیا
ہے، اس کے بعد بسم اللہ کی تفسیر سے کتاب شروع ہوئی ہے، ترجمہ کی
کتابت کمپیوٹر کے ذریعہ کی گئی ہے، تصحیح کے کافی
جتن کے باوجود غلطیاں رہ گئی ہیں، اس ترجمہ میں سورتوں کی
فہرست تو دی گئی ہے، لیکن فہرستِ مضامین نہیں ہے،
اگر اس کے ساتھ فہرست مضامین بھی ہوتی تو اس کا افادہ کثیراور
آسان ہوتا؛ اس لیے کہ آج کل پوری پوری کتاب پڑھ ڈالنے کا مزاج
علماء میں بھی ختم ہوتا نظر آرہا ہے تو عوام سے کس طرح اس کی امید
کی جائے؟ غرض یہ کہ اردو میں ہونے کی وجہ سے ظاہر ہے کہ
عوام ہی زیادہ پڑھے گی، ان کے لیے فہرست ہوتی تو
اور بھی اچھا ہوتا، ان سب کے باوجود ترجمہ کا کام ٹھیک ہے، طباعت
اورکاغذ وغیرہ عمدہ ہے، ٹائٹل بھی دیدہ زیب ہے۔
ترجمہ مولانا
عابدالرحمن صدیقی رحمہ الله
تفسیر ابن عباس رضي الله عنہ کا دوسرا ترجمہ حضرت مولاناعابدالرحمن صاحب صدیقی
رحمہ الله کا ہے، اس ترجمہ میں بھی
علامہ سیوطی رحمہ الله کی
’’لباب النقول في اسباب النزول‘‘ شامل ہے، اس کی اشاعت دیوبند کے
’’ادارہ درسِ قرآن‘‘ نے کی ہے، ترجمہ نہایت عمدہ اور سلیس ہے،
اصل متن کی مکمل تصویر ترجمہ میں جھلکتی ہے،اردو کے محاورات
اور روزمروں کے استعمال سے زبان کافی معیاری بن گئی ہے،
ثقیل اور مشکل الفاظ سے حددرجہ احتراز کیا ہے، اس میں آیات
کے ترجمے کے لیے حضرت تھانوی رحمہ الله کے ترجمہ کو منتخب کیاگیاہے، اس سے
قاری کا اعتماد اور زیادہ ہوجاتا ہے،آیات کو قدرے جلی خط
میں لکھا گیا ہے، پھر اس کے نیچے لکیریں کھینچ
کر اردو ترجمہ قدرے باریک خط میں دیاگیا ہے، فقہ کی
روشنی میں ترجمہ چھاپنے کا یہ طریقہ مستحسن اور بہتر بھی
ہے۔
اس ترجمہ کی ایک بڑی
خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ دارالعلوم دیوبند کے دو عظیم
مفتیانِ کرام کی نظر سے گذرا ہوا ہے، ایک حضرت مفتی کفیل
الرحمن صاحب نشاط# عثمانی رحمة اللہ علیہ ہیں اور دوسرے حضرت
الاستاذ مفتی محمد ظفیرالدین صاحب دامت برکاتہم ہیں، یہ
دونوں حضرات ‘‘دارالافتاء’’ کے بڑے قابلِ اعتماد مفتی تھے، اوّل الذکر ابھی
چند سال پہلے وفات پاگئے اورآخر الذکر اپنی کبرِ سنی کی وجہ سے
استعفا دے کر اپنے گھر میں آرام فرما ہیں۔ حضرت مفتی کفیل
الرحمن صاحب نشاط عثمانی رحمہ الله
اردو زبان وادب کا بھی اعلیٰ ذوق رکھتے تھے،اور بہت بڑے
شاعر تھے، ان کے تین شعری مجموعے زندگی میں ہی شائع
ہوکر اہلِ ذوق سے داد تحسین حاصل کرچکے ہیں (راقم الحروف نے اپنے ’’ایم
،فل‘‘ کے مقالہ میں ان شعری مجموعوں کے تجزیاتی مطالعہ کو
بھی شامل کیا ہے) موصو نے پورے ترجمہ کو بڑی گہرائی سے
مطالعہ فرماکر ’’عنوان بندی‘‘ بھی کی ہے، جس سے اس ترجمہ کی
افادیت میں چار چاند لگ گئے ہیں، ترجمہ کی تکمیل کے
بعد اشاعت کے موقع سے چھ اشعار میں ’’ہدیہٴ عقیدت‘‘ بھی
پیش فرمایا ہے،اور حضرت مفتی محمد ظفیرالدین صاحب
دامت برکاتہم نے اس ترجمہ پر تقریظ رقم فرمائی ہے، اور مترجم نے
’’عرضِ مترجم‘‘ کے عنوان سے سات صفحات پر مشتمل ایک دستاویزی
تحریر شامل اشاعت فرمائی ہے، ان تمام خصوصیات کی وجہ سے یہ
ترجمہ حافظ محمد سعید احمد عاطف مدظلہُ کے ترجمہ سے بہتر معلوم ہوتا ہے، خود
مترجم کو بھی اس کا اعتراف ہے، راقم الحروف کی سمجھ میں اب تک یہ
بات نہ آسکی کہ اچھے ترجمہ کی موجودگی میں پھر الگ سے
ترجمہ کی ضرورت ہی کیا رہ گئی تھی کہ جناب حافظ
عاطف صاحب نے زحمت فرمائی؟
طریقِ اشاعت
اس ترجمہ کی اشاعت کے لیے
’’ادارہ‘‘ نے پہلے ممبر بننے کا اعلان دیا، پھر ان ممبران کو قسطوں میں
ترجمہ بھیجا گیا، دیوبند سے عربی تفسیروں کے اردو
ترجموں میں چند ایک کی اشاعت کا یہی طریقہ
لکھا ہوا دیکھا گیا،اور بعض وقت تاخیر وغیرہ کی
معذرت بھی بعض قسطوں میں رقم نظر آئی۔
ترجمہ تفسیر
طبری
’’جامع البیان في تفسیر
القرآن‘‘ جسے تفسیر طبری کہا جاتا ہے، تفاسیر میں سب سے
قدیم ہے،اس کے موٴلف علامہ محمد بن جریر رحمة اللہ علیہ ہیں،
ان کی کنیت ابوجعفر ہے، طبرستان کی طرف نسبت کی وجہ سے
’’طبری‘‘ کہلاتے ہیں، ان کی ولادت باسعادت ۲۲۴ھ اور وفات ۳۱۰ھ بتائی جاتی
ہے، ’’تفسیرابن جریر‘‘ جیسی کوئی تفسیر اسلامی
کتب خانوں میں نہیں ہے، امت کے ہر طبقہ میں مقبول ومتداول ہے،
شاید ہی کوئی مفسر ایسا ہو، جس نے اس تفسیر سے خوشہ
چینی نہ کی ہو، اس تفسیر کو بالاتفاق مأخذ ومرجع ہونے کی
حیثیت حاصل ہے، اس کی خصوصیات درج ذیل ہیں:
(الف) احادیث اور روایات سے
تفسیر میں بعد والی ساری تفسیروں کے لیے
نمونہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
(ب) آیات کی تفسیر میں
اقوالِ صحابہ رضي الله عنہم سے بھرپور استفادہ کیاگیاہے۔
(ج) صحابہ
رضي الله عنہم ، تابعین رحمہم الله اور تبعِ تابعین رحمہم الله میں سے مفسرین کی آرا بھی
نقل کی گئی ہیں۔
(د) غرائب
القرآن میں خصوصی طور سے لغت وزبان، محاورات و اشعار سے استفادہ کیاگیا
ہے۔
(ھ) متعدد
مسائل میں ‘‘اجماعِ امت’’ کی نشان دہی کی گئی ہے۔
(و) مفسر
طبری چوں کہ خود مجتہد ہیں؛ اس لیے بہت سے مسائل میں اپنی
رائے اور اپنا فیصلہ بھی انھوں نے رقم فرمایا ہے، نیز
دوسرے کے اقوال پر محاکمہ بھی کیا ہے، یہ بات اور ہے کہ بعض
مسائل میں اپنی رائے سے بعد کی تصانیف میں رجوع بھی
کرلیا ہے۔
(ز) یہ
تفسیر ان کے علاوہ دوسرے علوم وفنون اوراسرار وحکم کا گنجینہ بھی
ہے۔
عربی زبان میں ہونے کی
وجہ سے اردو داں حلقہ کے لیے ناقابل رسائی تھی؛ اس لیے
حضرت مولانا ظہور الباری اعظمی نے اس کا ترجمہ کیا،اور دیوبند
کے مکتبہ ’’بیت الحکمت‘‘ کے ذریعہ اس کی اشاعت عمل میں آ
ئی، ممبرسازی کے ذریعہ قسط وار طبع ہوکر ممبران تک وی،پی
پوسٹ کے ذریعہ پہنچتی رہی، چونتیس (۳۴) پینتیس (۳۵) قسطوں میں شائع کیے جانے کا اعلان دیاگیا
تھا، مگر معلوم نہیں کہ ساری قسطیں مکمل ہوئیں یا
نہیں؟ تین پاروں کے چھ اجزاء مطبوع شکل میں نظرنواز ہوئے۔
ترجمہ بہت عمدہ ہے، زبان وبیان کے
لحاظ سے کہیں کمی محسوس نہ ہوئی، وقت کے بہت بڑے صاحب طرز ادیب
مولانا عبدالماجد دریابادی رحمة اللہ علیہ نے اپنے رسالے ہفتہ
وار ’’صدق جدید‘‘ میں ترجمہ کی عمدگی کا اعتراف فرمایا
ہے، اس عظیم علمی تفسیری سرمایہ کے اردو زبان میں
منتقل ہونے سے ان کو بہت خوشی ہورہی تھی، تبصرہ نہایت
حوصلہ افزا ہے، ۱۶/شوال ۱۳۸۴ھ کے ’’صدق جدید‘‘ کے فائل کو دیکھا
جاسکتا ہے، اسی طرح مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبہٴ
دینیات کے صدر حضرت مولانا سعید احمد اکبرآبادی رحمہ
الله نے بھی ماہ نامہ ’’برہان‘‘ دہلی
میں ’’تفسیر ابن جریر طبری‘‘ کے اردو ترجمہ کی بڑی
تعریف فرمائی ہے، ان بزرگوں کے اعتماد کے بعد ترجمہ کی خوبی
سے کسی طرح انکار نہیں کیا جاسکتا، اور سب سے بہتر تجربہ اپنا
مطالعہ ہے؛ چوں کہ یہ ترجمہ اردو خواں حلقہ کو پیش کیا جارہا
ہے؛ اس لیے ان کی رعایت میں نحو وصرف کے دقیق مسائل
کا ترجمہ جان بوجھ کر چھوڑ دیاگیا ہے؛ تاکہ عوام کی گرفت سے
باہر نہ ہوجائے؛ البتہ قراء ت اور زبان ولغت کی بحث کو تسہیل کے ساتھ
ترجمہ میں پیش کیا ہے، اسی طرح شروع میں یہ
وضاحت کی گئی ہے کہ : کتاب کے ابتدائی حصے (مقدمہ) کاترجمہ
چھوڑدیاگیا ہے۔
راقم الحروف کو یہ بات سمجھ میں
نہ آئی کہ قراء ت اور زبان کی بحث کو جب تسہیل کے ساتھ بیان
کرنے کی شکل نکالی گئی تو پھر نحو وصرف کے مسائل کو کیوں
چھوڑدیاگیا؛ کیا ان کو تسہیل بیانی کے ذریعہ
ترجمہ میں شامل کرنا ممکن نہ تھا؟ یہ طے کرلینا کہ اس کو عوام ہی
پڑھے گی خواص اور درمیان کے اہل ذوق استفادہ نہیں کریں
گے، محلِ نظر ہے؛ اس لیے ہر جزء کا سلیقہ سے ترجمہ ہونا ضروری
تھا، اسی طرح ’’مقدمہ‘‘ کو ترجمہ سے مستثنیٰ کرنا بھی
مناسب نہیں تھا، اس کو بھی تسہیل کے ساتھ ترجمہ میں شامل
کیا جاتا تو بہتر تھا، خیر! پسند اپنی اپنی ․․․
اس تفسیر میں اچھی خاصی
تعداد میں اسرائیلی روایات؛ بلکہ ضعیف کے ساتھ
موضوع روایات بھی ہیں، ترجمہ کے ساتھ اگر ان کے درمیان صحیح
اور غلط، ثابت اور غیر ثابت کی نشاندہی کردی جاتی
تو اور بھی بہتر تھا، جیساکہ ’’ابن کثیر‘‘ میں مفسر نے
خود یہ کام کرکے اپنا اعتماد حاصل کیا ہے، اللہ کرے! ’’مردے از غیب
نماید وکارے بہ کند‘‘!
غرض یہ کہ ترجمہ معیاری
اور سلیقہ مند ہے،اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے
کہ اس میں قرآنی آیات کے ترجمہ کے لیے سب سے قابل اعتماد
ترجمہ قرآن کو منتخب کیاگیا ہے اور وہ حضرت مولانا اشرف علی
تھانوی رحمہ الله کا ترجمہ ہے۔
(جاری)
***
-------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 4 ،
جلد: 95 ، جمادی الاولی 1432 ہجری مطابق اپریل 2011ء